آسیب زدہ گھر
ایک سچی کہانی
ہمیں اپنے نئے گھر میں ائے ہوئے دو ہفتے گزرے تھے۔ اس گھر میں چار بیڈ روم اور ایک لاؤنچ تھا۔ ہم چھ افراد تھے جس میں امی پاپا میں میرا ایک چھوٹا بھائی اور دو چھوٹی بہنیں تھی۔ یہ ہمارا پہلا گھر تھا جو اتنا بڑا تھا۔ اس لیے ہم سب ایک ہی کمرے میں سوتے تھے۔ اس گھر میں آنے کے بعد ہمارے حالات بہت اچھے ہونا شروع ہو گئے تھے۔ اب امی راشن کا سامان لینے مال جاتی تھی۔ جو ہم نے پہلی بار دیکھا تھا۔ ہمارا جو دل کرتا تھا امی ہمیں دلا دیتی تھی۔
ایک دن میں لاؤنچ میں بیٹھی پڑھ رہی تھی اور گھر میں لائٹ نہیں تھی۔ امی کچن میں کام کر رہی تھی جو لاؤنچ میں ہی تھا۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کوئی میرے برابر میں ہے میں نے دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں پھر کتابوں پر جھک گئی لیکن مجھے بار بار محسوس ہوتا رہا جیسے کوئی مجھے دیکھ رہا ہے۔ ( یہاں میں آپ کو بتاتی چلوں کہ میں گھر میں سب سے نڈر تھی۔ کیونکہ امی پاپا بچپن سے ہی گھر میں کئ بار اکیلی رکتی تھی) میں نے اگلے دن امی سے اس بات کا ذکر کیا جس پر امی نے مجھے بتایا کہ ایسا مجھے بھی محسوس ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے نیا گھر ہے اس لیے یہ ہمارا وہم ہو تم بس آیت الکرسی پڑھا کرو ۔ اگلے ہفتے امی نے اپنی بہنوں کی دعوت رکھی ۔ میں اور میری ایک بہن صبح سے گھر کی صاف صفائی میں مصروف تھے۔ امی مزے مزے کے کھانے بنا رہی تھی۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی تو میری چھوٹی بہن نے جھٹ سے جا کر دروازہ کھولا اور ہماری خالہ آئی تھیں۔ ہماری تین خالہ تھیں۔ ہم سب اپنے کزن کے ساتھ کھیل میں مگن ہو گئے۔ امی نے خالہ کو پورا گھر دکھایا۔ سب کھانا کھا کر باتیں کر رہیں تھے کہ میری بڑی خالہ جو دوسرے کمرے میں تھی آکر امی کو کہنے لگی کہ مجھے تمھارا بیڈ ٹھیک نہیں لگتا۔ اتنی ویرانیت ہے۔ خالہ کی یہ بات سن کر ایک لمہے کو سب خوفزدہ ہو گئے ۔ لیکن پھر بات آئی گئی ہو گئی۔ شام کی چائے پینے کے بعد خالہ چلی گیں۔ اس رات ہم سب جب اپنے اپنے بستر پر سونے کے لیے لیٹنے لگے۔ تو میری چھوٹی بہن بھاکتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی وہ بہت خوفزدہ لگ رہی تھی۔ امی سے کہنے لگی کے ڈرائنگ روم میں کوئی ہے۔ آپ میرے ساتھ چلیں مجھے وہاں سے اپنے کھلونے لینے ہیں۔ امی جب اس کے ساتھ کمرے میں گئیں تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ ہم نے سمجھا کہ چھوٹی کا وہم ہوگا اور سب سو گئے ۔ اس رات میری انکھ کھلی میں نیند میں ہی تھی اچانک میری نظر سامنے گئی وہاں درمیانے قد کا ایک آدمی کھرا جس کا چہرہ سہی نظر نہیں آیا لیکن وہ مجھے دیکھ کر خوفناک انداز میں مسکرا رہا تھا۔ میں نے ڈر کے مارے آنکھیں بند کر لی کچھ دیر بعد آنکھیں کھولیں تو وہ وہاں نہیں تھا میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ شاید وہ میرا وہم تھا کے اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میرے سرہانے سے کوئی میرے اوپر جھک رہا ہے۔ میں نے جو اوپر دیکھا تو وہ ہی شخص تھا۔ میں چیکھ مار کر اٹھی۔ میری چیکھ سے امی بھی اٹھ گئی اور چیکھنے کی وجہ پوچھنے لگیں۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے اس طرف اشارہ کیا لیکن وہاں اب کوئی نہیں تھا۔ امی نے میرے اوپر دعائیں دم کی اور میں دوبارہ سو گئی ۔ اب یہ روز کا معمول بن گیا تھا ہمیں بار بار ایسا لگتا تھا جیسے کوئی دیکھ رہا ہے۔ یا کبھی کالے سائے نظر آتے تھے اور کبھی عجیب و غریب خواب آتے۔
ہمیں اتنا تو یقین ہو گیا تھا کہ اس گھر میں کچھ نہ کچھ ہے۔ زندگی ایسے ہی چلتی رہی اور ہم بہن بھائی بھی بڑے ہو گئے ۔ اس دوران ہمارے حالات دن بہ دن بگڑتے گئے ۔ پاپا قرضدار ہو گئے۔ میری اور میری چھوٹی بہن کی شادی ہو گئی تھی۔ جب میرا بیٹا پیدا ہوا تو میں امی کے گھر رکنے آئی ۔ ایک دن میں کمرے میں لیٹی موبائل میں ڈرامہ دیکھ رہی تھی اور میرا 2 مہینے کا بیٹا جھولے میں کھیل رہا تھا۔ اچانک میری نظر میرے بیٹے پر پڑی جو ایک ہی سمت دیکھ کر کھیل رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی اس کے ساتھ کھیل رہا ہو۔ کبھی رات کو میرا بیٹا سوتے سوتے ڈر کر رونے لگتا۔ میرے بھائی کو بلی کا شوق تھا وہ باہر سے بلی کے بچے لاکر پالتا تھا ۔ وہ بلیاں بھی کبھی ایک کونے میں دیکھ کر غرانے لگتی کبھی اوپر دیکھ دیکھ کر کھیلنے لگتی۔ اب ہمیں ان سب چیزوں کی عادت ہو گئی ہیں۔ لیکن ہمارے گھر سے رونق ختم ہو گئی ہے۔ ہمارا گھر ایک گھنڈر لگتا ہے۔ ہم نے اسے بیچنے کی بہت کوشش کی لیکن کوئی نہ کوئی مسئلہ ہو جاتا ہے اور گھر نہیں بک پاتا ۔ میرے پاپا اب اور بھی قرضدار ہو گئے ہیں۔ ایک قرض اتارتے ہیں تو دوسرا چڑھ جاتا ہے۔ ہمیں اب بھی کسی کی موجودگی محسوس ہوتی ہے۔
0 Comments